Skip to main content
مینیو

ہم پہلے سے بھی مضبوط نیٹ ورک بنا رہے ہیں

کیتھرین کیلین باویریا میں اسٹارٹ ہوپ @ ہومز میں اُستاد ہیں۔

اسٹارٹ ہوپ ایٹ ہوم جرمنی میں موجود مہاجرین اور تارکین وطن کی اُن کے آبائی ممالک میں کاروبار شروع کرنے میں مدد کرتا ہے۔خواہشمند افرادکورونا کی وبائی صورتحال میں بھی مدد لے سکتے ہیں۔ باواریا اور نورڈرائن ویسٹ فالن میں کوچزکیتھرین کیلین اور زیاد الصباح بتاتے ہیں کہ یہ سب کیسے کام کرتا ہے۔ اسٹارٹ ہوپ ایٹ ہومزپروگرام سوشل امپکٹ کی جانب سے چلایا جارہا ہے،جو کہ سماجی تبدیلی کی ایجنسی ہے۔یہ پریسپیکٹیو ہیمت کے شرکت داروں میں سے ایک ہے۔

کورونا وبا کے دوران آپ کے کام میں کیا تبدیلی آئی؟

کیتھرین کیلین(کے کے):ہم اس وقت آن لائن اور ٹیلی فون پر مشاورت اور تربیتی سیشنز فراہم کررہے ہیں۔ماضی میں شرکا ہفتے میں ایک دن سوشل امپیکٹ کی لیب میں انفرادی اور اجتماعی تربیتی پروگرام میں حصہ لیتے تھے۔

رابطوں کے نئے طریقوں میں کن چیلنجرز کا سامنا کرنا پڑا؟

کے کے:شرکا جہاں رہتے ہیں وہاں اکثر وائی فائی (وائرلیس انٹرنیٹ) نہیں ہوتاتو ایسے میں صرف ٹیلی فون پر ہی سکھانا ممکن ہوتا ہے،جو کہ ہمارے کام کو مشکل اور طویل بنادیتا ہے۔ فون پر حساب کتاب کی مثال دے کر سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔لہذا ایسے میں اہم ادھار انٹرنیٹ یا پھر ہاٹ اسپاٹ کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔

وبا کے دوران اساتذہ نے زیادہ تر مشاورت آن لائن فراہم کی۔

شرکا کیلیےڈیجیٹل مہارتوں کو بہترین بنانا کتنا اہم ہے؟

کے کے:ہمیں حالات کے مطابق ڈھلنا ہوتا ہے،کیونکہ شرکا کے درمیان بہت زیادہ فرق ہوسکتا ہے۔کئی کی کمپیوٹر تک رسائی نہیں ہوتی۔اس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں ہم نے ایک عراقی کو سکھانے کیلیے ویڈیو کانفرنس کا استعمال کیا۔اُس کے پاس کمپیوٹر اور ای میل ایڈریس تھا، جس کا مطلب کہ وہ آئن لائن ٹولز کو ڈاؤن لوڈ کرسکتا تھا۔ہم اپنی اسکرین اس کے ساتھ بانٹنے کے قابل ہوئے اور ہم نے اُس کی موبائل مرمت کی دکان پر مل کر کام کیا،جو کہ وہ عراق میں کھولنے کا خواہشمند تھا۔

زیاد الصباح(زیڈ ای):میں ہر کسی کے انفرادی حالات پر غور کرتا ہوں۔ ہمارے پاس کتنا وقت ہے اور وہ چیزوں کو کتنا قبول کرتا ہے؟ بعض اوقات میں صرف بنیادی رابطوں کا بتاتا ہوں،مثال کے طور پر اُس کے ملک میں قائم مشاورتی مرکز میں کام کرنے والا ماہر۔شرکا کیلیے یہ جاننا اہم ہے کہ لوگ اُن کا انتظار کررہے ہیں،جو اُن کی مدد جاری رکھیں گے۔

زید الصباح شمالی رہائن - ویسٹ فیلیا میں اسٹارٹ ہوپ @ ہومز میں اُستاد ہیں۔

معنی خیز تعاون کیلیے اعتماد بنیادی جز ہوتا ہے،آپ بالمشافہ ملاقات یا رابطے کے بغیر یہ کس طرح قائم کرتے ہیں؟

کے کے:یقینی طور پر آپ آمنے سامنے بیٹھ کر بہترطریقے سے بات کرسکتے ہیں۔ تو کورونا وبا کے دوران بذریعہ فون اور اسکرین کسی کو جاننے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔

زیڈای:ہر کسی کو اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا،ہمیں اُن کے ساتھ اعتماد کی فضا قائم کرنے کیلیے ایک ہفتے کے اندر زیادہ سے زیادہ بات کرنی ہے اور رابطے کرنا ہیں۔ یہ تبدیلی اُن کیلیے زیادہ آسان رہی جن کو ہم کورونا سے پہلے ذاتی طور پر جانتے تھے۔

کیا زبان کے کوئی مسائل تھے؟

زیڈ ای:اگر ہم جرمن زبان کا استعمال نہ کرسکیں تو ہم انگلش اور رفرنچ (فرانسیسی)زبان بولتے ہیں۔ہمارے دیگر کوچز بھی ہیں جو دیگر زبانیں بولنے کے ماہر ہیں۔مثال کے طور پر میں عربی زبان میں بھی مشورے دے سکتا ہوں۔ ابھی تک ہمیں آن لائن مواد کے ترجمے کی ضرورت نہیں پڑی۔

کیا کورونا کے دور سے آپ نے کچھ سیکھا؟

زیڈ ای:ہمیں احساس ہوا کہ آن لائن کئی چیزیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ہم مستقبل میں اِن طریقوں کو استعمال کریں گے۔نیٹ ورکنگ بہت اہم ہے۔ ہم وطن واپسی کے مشیروں کے ساتھ زیادہ اچھے سے طریقے سے کام کررہے ہیں،جو براہ راست لوگوں کیساتھ اُن کی رہائش کے سلسلے میں کام کررہے ہیں۔ یہ اکثر تعلقات قائم کرنے میں تکنیکی مشاورت فراہم کرتے ہیں۔ ہم جنہیں مشورے فراہم کرتے ہیں اُن کو بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں تاکہ وہ اپنے تجربات کوآپس میں بانٹ سکیں۔

کیا آپ کے شرکا نےوبا کے باعث پیدا نئی صورتحال پر ردعمل دیا ہے؟

زیڈ ای:وہ اب بھی متحرک ہیں۔میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اُن کی گھر واپس جانے کی خواہش مزید مضبوط ہوگئی ہے۔لوگ اب واضح طور پر زیادہ جذباتی ہوتے ہیں اور اپنے ملک اور اہلخانہ کے بارے میں زیادہ سوچ رہے ہیں۔

کے کے:ہم پتہ ہے کہ کچھ لوگ اب فکر مند ہورہے ہیں۔یہ اکثر پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے اور سرحدیں کب کھلیں گی۔ اُن کیلیے اپنے ملک کے حوالے سے قابل بھروسہ معلومات کا حصول انتہائی مشکل ہے۔انہیں اکثر علم نہیں ہوتا کہ وہاں صورتحال کیا ہے اور اُن کی واپسی کیلیےاس کا کیا مطلب ہوگا۔ اسی لیےہم اِن ممالک میں اپنے شرکت داروں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔

As of: 06/2020

کورونا وبا کے دوران بذریعہ ٹیلی فون اور اسکرین کسی کو جاننے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔

ملکوں کے تجربات