Skip to main content
مینیو

اپنا کاروبار۔۔۔ جذبہ اور روایت

ندیم اپنے کپڑوں کی دکان میں ہیں

اپنا کاروبار۔۔۔ جذبہ اور روایت

میرا نام ندیم ہے۔ میری عمر57سال اور میں پاکستان کے صوبے پنجاب کے چھوٹے سے شہر جہلم سے آیا ہوں۔ 2015 میں روزگار اوربہتر مواقعوں کیلیے میں نے گھر والوں کو چھوڑ دیا۔ لیکن میں یہاں کبھی ٹھیک سے آباد نہ ہوسکا۔ 5 سال کے دوران چھوٹی موٹی نوکری کرنے کے بعد میں پاکستان واپس آگیا اور اب میں جہلم میں کپڑوں کا کاروبار کررہا ہوں۔پاکستانی جرمن فیسلیٹیشن اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) نے اس میں میری مدد کی۔

اپنی دکان کے ساتھ نیا کاروبار شروع کرنا صرف بہتر تیاریوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا۔اس کا آغاز جرمنی میں ہوا جب فرینکفرٹ میں میرے دوست نے مجھے واپسی کے مشاورتی مرکز کے بارے میں آگاہ کیا۔ میرے مشیر نے میرا رابطہ واپسی کے رضاکار سے کرایا جنہوں نے ضروری تجزیہ تیار کیا۔ میرے مشیر نے پاکستان میں موجود مواقعوں کے حوالے سے مجھے بتایا۔ پہلی ملاقات کے بعد ہی میں مطمئن ہوگیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ جلد ہی میں اپنے گھر میں اہلخانہ کے ساتھ ہوں گا۔

جرمنی سے پاکستان کے ساتھ رابطہ

جرمنی سے روانہ ہونے سے قبل مجھے واپسی کے مشیران کے ذریعے پاکستان میں پی جی ایف آر سی کے مشیر کے بارے میں پتہ چلا۔ وہ میری نئی شروعات اور  واپسی کے بعد مدد کیلیے لاہور سے رابطے میں تھا۔اُنہوں نے خود کا کاروبار شروع کرنے کیلیے میرا حوصلہ بڑھایا۔اُن کا مشورہ تھا کہ مجھے جرمنی میں اسٹارٹ ہوپ ایٹ ہومز کا پروگرام مکمل کرنا چاہیے۔ یہ پروگرام مہاجرین اور پناہ گزینوں کو اپنے آبائی ممالک میں کاروبار شروع کرنے میں مدد کرتا ہے۔یہ نئی شروعات کی تیاری کیلیے کیے جانے والے بہت سے کورسز میں سے پہلا کورس تھا۔

پی جی ایف آر سی کے مشیر نے مجھے آر ای اے جی/جی اے آر پی منصوبے (ری اینٹی گریشن اینڈ امیگریشن پروگرام فار اسلائم-سیکر  اِن جرمنی/ گورنمنٹ اسسٹڈ ری پارٹیشن پروگرام) کے تحت انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) بھجوایا،انہوں نے واپسی اور پھر پاکستان پہنچنے کے بعد ابتدائی چند ہفتوں میں میری مدد کی۔ مشیر نے مجھے یہ بھی مشورہ دیا کہ میں یورپیئن ریٹرن اینڈ ری اینٹی گریشن نیٹ ورک ای آر آر آئی این بزنس اسٹارٹ – اپ پلس منصوبے سے فنڈنگ کیلیے درخواست دوں۔ ای آر آر آئی این نے کاروبار شروع کرنے کیلیے رقم کے ذریعے میری مدد کی۔

نئے لباس کی تیاری کیلیے کپڑا

ابتدا میں پاکستان میں صارفین نے کپڑا بغیر کسی کڑھائی کہ روایتی لباس کی سلائی کیلیے خریدا۔ اسٹور میں موجود کپڑے کو تھان کہا جاتا ہے جو کہ کپڑے کا ایک بڑا رول ہوتا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق کپڑا خریدتے ہیں۔جس کے بعد وہ درزی کو یہ کپڑا فراہم کرتے ہیں جو اس سے لباس تیار کرتا ہے۔میں نے اس روایت کی پاسداری کرتے ہوئے کپڑے فروخت کیے لیکن میں خود لباس کی سلائی نہیں کرتا۔

وبا سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور لوگوں کی قوت خرید کافی حدتک کم ہوئی جس سے میرے کاروبار پر انتہائی منفی اثر پڑا۔ کیونکہ میں کپڑوں کی اقسام کو بڑھا رہا تھا اور کپڑا براہ راست تیار کرنے والوں سے خرید رہا تھا تو اس سے میں نے  ترسیل کے اخراجات میں کافی بچت کی۔ پی جی ایف آر سی نے میرا رابطہ موجاز فاؤنڈیشن سے بھی کرادیا، جو اس حوالے سے میری مزید مدد کرسکتے ہیں۔

ندیم(دائیں جانب ) اور پی جی ایف آر سی کے مشیر فیصل شبیر

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے مشہوری

حال ہی میں پی جی ایف آر سی نے مجھے دکھایا کہ میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے کاروبار کو مزید وسعت کیسے دے سکتا ہوں۔  اب میں جانتا ہوں کہ کامیابی سے اپنی مصنوعات کی آن لائن مشہوری کیسے کرتے ہیں اورواٹس ایپ کے ذریعے میری فروخت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ پی جی ایف آر سی سے ملنے والی مدد بھی مجھے حوصلہ فراہم کرتی ہے۔تربیتی کورسز اور مشاورت مجھے اعتماد دیتی ہے کہ میں تازہ ترین چیلنجز سے نمٹ سکتا ہوں۔

تاوقتیکہ: 07/2021

یہاں مدد اور مشاورت کے لیے بیان کردہ مواقع"نئے مواقعوں کی جانب واپسی"منصوبے کا حصہ ہیں۔

مزید جانیں >
اپنے ذاتی اسٹور کے ساتھ نئے کاروبار کی وجہ صرف اور صرف وہ تیاری ہے جو میں نے کی۔
ندیم

ملکوں کے تجربات