میں کمپنی میں کام کرتی تھی جسے کووڈ – 19 کی وبا کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ تو میں نے روایتی کپڑوں کی فروخت کا آن لائن کاروبار شروع کیا۔ میرا کاروبار کامیاب ہوگیا اور اس کیلیے میں پی جی ایف آر سی ملنے والی مدد کی بہت شکرگزار ہوں۔
مجھے جس کی تلاش تھی وہ مجھے مل گیا: میں اپنے آبائی ملک میں بطور ڈرائیور خود مختار ہوں۔ پاکستانی جرمن فیسلیٹیشن اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر نے اس موقع کی تلاش میں میری مدد کی۔
میں جرمنی اس لیے گیا تاکہ اپنے گھر والوں کی مدد کرسکوں۔ میری والدہ بیمار ہوئیں تو میں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی – جرمن فیسلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) نے درزی کی دکان کھولنے میں میری مدد کی۔
پاکستانی جرمنی فیسیلیٹیشن اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر کی جانب سے فراہم کردہ مدد سے اب میں اپنا کاروبار کامیابی سے چلارہا ہوں۔
نیا کام سیکھنا یا اپنا خود کا کاروبار شروع کرنا کئی لوگوں کا خواب ہوتا ہے۔ پاکستانی جرمن فیسیلیٹیشن سینٹر اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ اپنے شراکت دار اداروں کے ساتھ مل کر پیشہ وارانہ تربیت کراتی ہے، جس میں ایک ماہ فوٹوگرافی کا کورس بھی شامل ہے۔ ایک جھلک پردے کے پیچھے کی۔
نیا کام سیکھنا اور اپنا کاروبار شروع کرنا چند ان چیزوں میں سے ہے جس کا کئی لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستانی – جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) مدد فراہم کرتے ہیں جن میں فن طباخی کا تربیتی کورس بھی شامل ہے۔
نیا کام سیکھنا اور اپنا کاروبار شروع کرنا چند ان چیزوں میں سے ہے جس کا کئی لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستانی – جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) موٹرسائیکل مکینک کا تربیتی کورس فراہم کرکے مدد کرتا ہے۔
تربیتی پروگرام نے مجھے سکھایا کہ اپنا ٹیکسی کا کاروبار کیسے چلانا ہے۔
ممکنہ آجروں کے ساتھ گفتگو، مستقبل کے اہم معاملات پر ورکشاپ اور سب سے بڑھ کر ڈھیر سارا حوصلہ: گھانا جاب فیئر2021 کے حوالے سے تاثرات
میری اہلیہ اور میں نے کووِڈ-19 کی وبا کے دوران بھی اپنے کاروبار کو جاری رکھا۔
میری واپسی کے بعد پی جی ایف آر سی ملنے والی مدد اور مشاورت نے کاروبار شروع کرنے اور اسے چلانے کو ممکن بنایا۔
میں اپنے آبائی علاقے میں خود کا ریستوران چلاتا ہوں۔ اہم معاونت کا شکریہ،میں اپنے کاروبار کو مسلسل ترقی دے سکتا ہوں اور بحرانوں سے بھی نمٹ سکتا ہوں۔
جرمنی میں گزرا وقت بہت اچھا تجربہ تھا۔ لیکن میں وہاں کام نہیں کرسکتا تھا۔ سینیگال میں واپس آکر میں اب سلائی کی دکان چلاتا ہوں اور اب میں ایک تیار لباس کی دکان کھولنے کا بھی سوچ رہا ہوں۔
میں نے پی جی ایف آر سی کی مدد سے کپڑوں کا کاروبار قائم کیا۔میری مشہوری میں سوشل میڈیا کااستعمال بھی شامل ہے۔
کئی افراد بہتر زندگی کی تلاش میں تیونس کے ساحلی شہر سفیکس سے یورپ کی راہ لیتے ہیں۔ جرمن – تیونیشین سینٹر فار جابز، مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن (سی ٹی اے) کےمشیر اُسامہ ہجرت کے کچھ متبادل راستوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
میرا نام ویلبونا ہے اور میں ایک ڈیری فارمر ہوں۔ میں شادی شدہ ہوں۔ میرے4 بچے اور ایک ماں ہے۔
اپنی ڈلیوری سروس شروع کرنے کا مطلب ہے کہ دیگر نوجوانوں کو بھی اُن کے مستقبل کے امکانات کی پیشکش کرسکتا ہوں۔
مچھلیوں کی افزائش کے تربیتی کورس میں جو علم میں نے حاصل کیا اُس کا مطلب ہے کہ میں اپنی کمپنی کھول سکتی ہوں۔
میری بہن اور میں نے آبائی وطن نائیجریا میں اپنے نام سے کاروبار شروع کیا.
ہماری واپسی کے بعد میری اہلیہ اور میں نے دوبارہ سے شروعات کی: سبزیاں اگانا اب ہمارا مستقبل ہے۔
واپس لوٹنے والوں کے ساتھ گفتگو کا مرکزی نقطہ کیا ہوتا ہے؟ زینٹریل رکربیراتنگ سُدبائیرن (زیڈ آر بی – سینٹرل ریٹرن کاؤنسلنگ فار ساؤتھرن باویریا) کے مارکوس فیبگر اپنی ٹیم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے
کاروبار کیسے شروع کریں کی تربیت نے مجھے میری دلچسپی کو پیشے میں بدلنے کے قابل بنایا۔
سلار ایربیل میں جی ایم اے سی میں ایک مشیر ہیں۔ یہاں انہوں نے اپنے روزہ مرہ کے معمولات پر گفتگو کی ہے۔
ڈی ماک کے مشیر نیکسمیڈن باشا نفسیاتی مدد فراہم کرسکتے ہیں اگر ذہنی تناؤ کوسوو میں نوکری کی تلاش اور زندگی کو مشکل بنارہا ہو۔
اہلیہ اور میں نے گھانا میں 2 اشیائے خورونوش کے اسٹور کھولے۔یہاں تک کا سفر انتہائی مشکل تھا لیکن ہم نے ساتھ مل کر طے کیا۔
میں نے مراکش میں اپنے قصبے میں ایک چھوٹی سی سرسبز دنیا بنائی ہے۔ جس سے میں کماتا ہوں اور یہ استحکام کی جانب میرا حصہ ہے۔
نگہت عزیز پاکستان جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر(پی جی ایف آر سی مشیر ہیں اور ضرورت مند خواتین اور مرد حضرات کی رابطہ کار ہیں۔ یہ مرکز میں دیگر شراکت دار تنظیموں کے ساتھ مل کر اُن کی مخصوص ضروریات کے حل کیلیے کام کرتی ہیں۔
اپنی ورکشاپ قائم کرنے نے میری زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
اپنے علاقے میں کپڑے بننے والوں کیلیے نامیاتی(غیرملاوٹ شدہ) معیار کا اُون،اس منصوبے نے مجھے کامیابی سے ہمکنار کیا۔
Ich habe in Senegal ein Geschäft für Umstands- und Babykleidung eröffnet.
میں نے کامیابی کے ساتھ سربیا میں صفائی کا کاروبار قائم کیا۔
میرے علاقے میں بہت زیادہ لوگ بیروزگار ہیں۔ میں اس کو تبدیل کرنے میں مدد کیلیےاپنا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں۔
میں مراکش میں بطور لوگو ڈیزائنرخودمختار بن گیا۔ایک اچھا فیصلہ جوکہ مجھے اُمید ہے کہ دوسروں کو فائدہ دے گا۔
اب میں نائیجیریا میں واپس آکر اپنے اہلخانہ کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں اور مرغیوں کو پال رہا ہوں۔ یہاں رہ کر کچھ بھی حاصل کرنا ممکن ہے۔
کوسووو میں اب میں میرا خود کا ہیئرسیلون ہے۔یہ میرےبچوں کیلیے بھی مستقبل کے مواقعوں کے دروازتے کھولتاہے۔
4لڑکیوں کے والد اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلیےپُرامید ہیں۔جرمن انفارمیشن سینٹر فار مائیگریشن،ٹریننگ اینڈ امپلائمنٹ (ڈی ماک) اس میں خاندان کی مدد کررہا ہے۔
مجھے سربیا میں بیوٹی پارلر میں ایک نیا پیشہ ورانہ گھر مل گیا۔ یہاں تک کا میرا راستہ کافی طویل اور مشکل تھا۔
سیموئل نے یورپ میں بہتر زندگی کی تلاش میں گھانا چھوڑا ۔کئی کٹھن سالوں کے بعد وہ واپس گھانا آچکے ہیں اور اب اپنے آبائی وطن میں نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ خود کے کپڑے کے کارخانے کا منصوبہ تشکیل دیا یہاں تک کہ وہ اُس وقت جرمنی میں ہی تھے۔
میں نے 2بار گھاناسے یورپ کیلیے رخت سفر باندھا اور دونوں بار مجھے کامیابی کے بغیر واپس لوٹنا پڑا۔اب میں اعتماد کے ساتھ اپنے مستقبل کی جانب دیکھ سکتا ہوں اور اس کیلیے میں گھانین-جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن(جی جی سی) کا شکرگزار ہوں۔
اب میں بڑھئی ہوں جوریستوران کا تمام کام کرتا ہے۔اگرچہ اپنے من پسند کام(خوابوں کی نوکری)میں کامیابی کیلیے راستہ کافی طویل تھا۔
سحر علی مصر – جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن (ای جی سی) کی سربراہ ہیں،اس نئے مرکز کا آغاز نومبر کے اوائل میں قاہرہ میں ہوا ہے۔اپنی گفتگو کے دوران اُنہوں نے بتایا کہ یہ مرکز کیا کرتا ہے اور وہ اِس کیلیے اتنی پُرامید کیوں ہیں۔
میرا خیال تھا کہ یورپ جانے سے میری تمام مشکلات حل ہوجائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اب میں سینیگال میں رہتا ہوں اور بہت خوش ہیں، اس کیلیے میں ہاؤس آف ہوپ کا شکرگزار ہوں،جنہوں نے مجھے نفسیاتی مدد فراہم کی۔
فیشن ڈیزائنر ٹوٹی نے "سکسیس فل اِن سینیگال" منصوبے کی مدد سے اپنا خود کا ٹیلرنگ(درزی) کا کاروبارشروع کیا ہے۔
تیونس میں حکومت کی زیر سرپرستی میں چلنے والے دو ووکیشنل کالجز نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ سیکھاتے ہیں کہ کس طرح کیٹرنگ اور ہوٹل کی صنعت میں اپنا کیریئر(عملی مستقبل) شروع کریں۔
جو لوگ جرمنی میں عملی تربیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اُن کے پاس اپنے آبائی وطن میں نوکری کی تلاش کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔اسی لیے جو واپس جانے کی خواہشمند ہیں وہ یہاں قینچی، ہیئر ڈرائیر اور بال رنگنے کی مشقیں کررہے ہیں۔
البانیا میں یہ پروگرام جی آئی زیڈ کی جانب سے کرایا جاتا ہے تاکہ نوجوان مرد اور خواتین کو ہوٹل انڈسٹری میں نوکری کیلیے تیار کیا جاسکے اور کامیابی کیساتھ نوکری کی تلاش کے امکانات کو بڑھایا جائے۔
ڈیوڈ یامینسا ٹیٹ آکرا میں گھانین جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن (ایم آئی اے سی) کے ڈائریکٹر ہیں، اس مختصر انٹرویو میں انہوں نے سینٹر کے کام اورکس چیز نے اُنہیں ذاتی طور پر تحریک دی اُس حوالے سے بات چیت کی ہے۔
جرمنی سے واپس لوٹنے والا خاندان اپنے بچوں کیلیےاسکول کی تلاش میں ہے۔ جنوبی سربیا کے ایک گاؤں کے مرد اور خواتین جاننا چاہتے ہیں کہ نوکری کس طرح حاصل کی جائے۔ تمارا ویسینوویک اُن کی اور دیگر افراد کی مدد کرتی ہیں۔ وہ جرمن انفارمیشن سینٹر آن مائیگریشن،ٹریننگ اینڈ امپلائمنٹ (ڈی ماک) اِن سربیا کے مشیر ہیں۔
یورپ کیلیے میرا سفر لیبیا میں ختم ہوا لیکن اب میں اور میرا بھائی اپنے آبائی ملک نائجیریا میں خود کا ٹیلرنگ(درزی) کا کاروبار چلا رہے ہیں۔
کاروبار کو کامیابی سے چلانے کی چاہت تجارتی سوجھ بوجھ چاہتی ہے۔سپارک اسین سٹفٹنگ کی جانب سے کرایا جانے والا کورس سکھاتا ہے کہ اچھے طریقے سے علم کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
میرا نام عجیم ہے اور میں کوسووو سے آیا ہوں۔میں ماربل انڈسٹری میں کام کرتا تھا لیکن میری تنخواہ انتہائی کم تھی۔ جس سے گھر کا خرچ چلانا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔تو2015 میں میں اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ جرمنی چلا آیا اور ہم نے پناہ کیلیے درخواست دے دی۔
میرا نام بیسٹون ہے؛میں 32 سال کا ہوں اورمیں عراق کے شہر اربیل سے آیا ہوں۔ میں شادی شدہ اور 2 بچوں کا باپ ہوں۔ہم سب 2018 میں جرمنی گئے ،کیونکہ عراق میں ہمارے لیے حالات پہلے سے بدتر ہوگئے تھے لیکن جرمنی میں بھی ہمارے لیے زندگی اچھی نہ تھی۔آج ہم اربیل واپس آچکے ہیں اور میرا اچھا کیریئر ہے۔ اب میں ایک ہیئر ڈریسر ہوں۔
میرا نام ری الاف اور عمر 25سال ہے۔میں2018کے آغاز میں جرمنی گیا اور وہاں اپنا کیریئر شروع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن5ماہ گزارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ بغیر قانونی حیثیت کہ یہ مشکل ہوگا۔تو اپنے وطن البانیا واپس آگیا۔اس کے بعد میرے لیے مواقعوں کے نئے دروازے کھل گئے۔جو ہوا وہ یہ تھا
میرا نام ساسا ہے۔میں نے وسطی سربیا کے شہرکروشیواتس میں جنم لیا اور جرمنی میں کئی سال گزارنے کے بعد میں اپنے گھر لوٹا۔اس دوران میں سربیا میں اپنی کمپنی کھولنے کے قابل ہوا،یہ وہ چیز تھی جس کا میں نے ہمیشہ سے خواب دیکھا تھا۔ لیکن میں نےکچھ مدد بھی لی۔ یہی میری کہانی ہے۔
میرا نام ناں ہے؛میں29سال کی ہوں اور گھانا سے آئی ہوں۔میں بطور ایونٹ منیجر کام کرتی تھی۔2015 میں ڈویلپمنٹ اکنامکس اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ماسٹر ڈگری پروگرام کیلیے جرمنی گئی۔لیکن یہ آغاز میں ہی واضح تھا کہ اختتام پر مجھے واپس لوٹنا ہوگا۔میں ترقی میں اپنے ملک کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ساتھ ہی ساتھ میں غیریقینی کا شکار تھی کہ وہاں کسی طرح اپنا مستقبل بناسکتی ہوں۔
میرا نام سیفٹ ہے اور میں سربیا سے آیا ہوں۔اپنے ملک میں طویل عرصے تک بطور مستری اور سجاوٹ والا کام کرنے کے بعد میں قسمت آزمانے جرمنی آیا ۔ اگرچہ یہاں نوکری کی تلاش انتہائی مشکل کام تھا۔ تو میں نے سربیا واپس جانے پر غور شروع کردیا ۔ جس کے بعد میرے لیے فیصلہ لیا گیا اور جرمن حکام نے مجھے ڈیپورٹ کردیا۔
میرا نام سید ہے اور میں مراکش کے ضلع فیس میں پلابڑھا۔یہاں میں نے درزی کا کام سیکھا۔ مجھے لگا کہ دیگر جگہوں پر مواقع زیادہ ہوں گے،تو 2015 میں سب سے پہلے ترکی اور پھر یونان گیا۔آخری کار میں جرمنی پہنچا۔ اُسوقت میں میری عمر30سال تھی اور جرمنی میں کام کی تلاش کیلیے پُرامید تھا۔
میرا نام ڈیرک ہے؛میں گھانا سے آیا ہوں اورمیری عمر29 سال ہے۔میں نے کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کی لیکن اپنے ملک میں نوکری نہ حاصل کرسکا۔ میں2014 میں بطور سیاح جرمنی آیا اور پھر وہیں رک گیا اور ریسٹورنٹ میں کام کرنے لگا۔لیکن میری زندگی ویسی نہیں تھی جیسے میں نے سوچی تھی۔
میں اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کیلیے جرمنی گیا۔ جانیں کہ میں اربیل میں دوبارہ کیوں رہائش پذیر ہوں اور میں واپس کیسے آیا؟
میرا نام جیری ہے اور میں نائجیریا سے آیا ہوں۔2014 میں اسکالرشپ کی وجہ سے میں نے ایک سال برطانیہ میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد مجھ پر یہ واضح ہوگیا:میں نائیجیریا واپس جانا چاہتا ہوں اور اپنے علم کو اپنے ملک میں استعمال کروں۔
یورپ میں پیشہ ور فٹبالر بننے کا میرا خواب غیر حقیقی تھا۔ اب گھانا میں میری خود کی بیکری ہے اور میں اپنا اچھے سے خیال رکھ سکتا ہوں۔
کام کی تلاش میں گھانا کو چھوڑنا؟ ہر کسی کو اس پر احتیاط سے غور کرنا چاہیے۔ ہمارے لیے یہاں پر تمام مواقع موجود ہیں۔
ایسی کمپنی شروع کرنا جو انٹرنیٹ مارکیٹنگ پر زور دیتی ہو اُس نے انہیں اُمید دلائی:جرمنی سے سربیا لوٹنے کے بعد امیلیانو نے اپنا نیا مستقبل بنایا۔ آج وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے اور کئی نئے ملازمین کو نوکریوں پر رکھنے پر غور کررہا ہے۔
میرا نام بلال ہے۔2015 میں معاشی مشکلات کے بعد میں نے عراق چھوڑا اور جرمنی چلا گیا۔ میں وہاں بہتر زندگی کی تلاش میں تھا۔میں 12 دن کے سفر کے بعد بغیر مناسب کھانے یا رہائش کے بعد جرمنی پہنچا ۔میری اُمیداپنی مشکلات کا حل تلاش کرنا تھا۔
سلام، میں خالد ہوں۔ میں 34 برس کا ہوں اور تیونس سے آیا ہوں۔ میرے خاندان کا پھلوں اور سبزیوں کا کاروبار ہے جہاں میں نے طویل عرصے تک کام کیا۔ یورپ میں رہنا میرا ہمیشہ سے خواب تھا ۔ 2008میں جب میں 24سال کا تھا میں نے یورپ کیلیے رخت سفر باندھا۔ آغاز میں، میں نے ایک سال اٹلی میں گزارا۔ جس کے بعد میں بذریعہ فرانس اور بیلجیئم جرمنی پہنچا ۔
میرا نام یاسین ہے اور میں مراکش سے آیا ہوں۔ میں نے ضلع فیس سے اسلامی تعلیم مکمل کی لیکن گریجویشن کے بعد نوکری حاصل نہیں کرسکا۔اُس کے بعد خوش قسمتی سے پروموشن آف رورل یوتھ امپلائمنٹ(پی ای جے) پراجیکٹ کی جانب سے تربیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
میرا نام اگریتا ہے اور میں البانیہ سے آئی ہوں۔میں نے جرمنی 2016میں اپنے خاوند اور3 بچیوں کے ساتھ جرمنی ہجرت کی۔ہم کیا چاہتے تھے؟ ایک بہتر زندگی! درحقیقت یہ بہت اچھا رہا:میرے خاوند کو ویلڈنگ اور مجھے صفائی کا کام اور بچوں کو اسکول میں داخلہ ملا۔انہوں نے جلد ہی جرمن سیکھ لی۔ اس وقت تک ہم نے اپنے اہلخانہ، دوستوں اور البانیہ کے رسم و رواج کو بہت یاد کیا۔لہذا 2017 جنوری میں ہم واپس لوٹ گئے۔
عام حالات میں جب آپ اپنے ملک واپس لوٹ رہے ہوں تو لوگ کئی طرح کے سوالات پوچھتے ہیں۔کورونا کی وبا نے تو حالات کو یکسر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔یہاں آپ ماضی اور حال کے چند اہم حقائق سے سیکھ سکتے ہیں ۔8سوالات اور اُن کے جوابات۔
سولوڈی (سولیڈیرٹی ود وومین اِن ڈسٹریس) انسانی حقوق کا ادارہ ہے،جو مشکل صورتحال میں خواتین کی مددکرتا ہے اور اِنہیں خودمختار بناتا ہے۔ سولوڈی جی آئی زیڈ کی شراکت دار ہے اور جرمنی میں موجود خواتین جو اپنے وطن واپس لوٹنے کے خواہشمند ہوں اُن کی مدد کرتا ہے
اسٹیفن گروئنبام جی آئی زیڈ کے اُن 20 رضاکاروں میں سے ایک ہیں جو جرمنی کی تقریباً تمام ریاستوں میں ہی موجود ہیں۔یہ تمام جرمنی میں موجود کونسلرز اوردیگر ممالک میں کام کرنے والوں کے درمیان رابطہ پل کا کردار ادا کرتے ہیں
کورونا کی وبائی صورتحال کے دوران اسٹارٹ ہوپ ایٹ ہومز کی نئے کاروباری کیلیے مشاورت کس طرح کام کررہی ہے؟
گھانین-جرمن سینٹر فار جابز،مائگریشن اینڈ ری اینٹیگریشن (جی سی سی) کی ارنیسٹینا آڈو نے کورونا وبا کے دوران اپنے کام کے حوالے سے گفتگو کی۔
کورونا بحران کے دوران کام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مشیر ہیلسا ڈوکا اور ڈوریسا لالا کا کہنا تھا کہ حالیہ چند سالوں کے دوران ہماری ساکھ اور صاف گوئی کی وجہ سے ڈی ماک پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور اب اس کا فائدہ ہورہا ہے۔
سینتھیانائجیریا میں اپنا فیشن اسٹور کھولنے کی خواہشمند تھیں لیکن پھر کووڈ-19کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب سینتھیا فیس ماسک کی سلائی کررہی ہیں اور اِس بحرانی دور میں سرکاری آرڈر سے اُنہیں مالی مددمل رہی ہے۔
تربیتی کورسز کا انعقاد کیا نہیں جاسکتا،واپس جانا ناممکن ہے اوراِن ممالک میں نوکریوں کے حوالے سےبہت دباؤ ہے:نیو پلیسمنٹ انٹرنیشنل(این پی آئی) کے منصوبے نے کورونا بحران میں دوسرا جنم لیا ہے۔موجود صورتحال پر چار سوالات اور اُن کے جوابات۔