دیہات کی کاروباری خواتین کے لیے تربیت: ’میں اپنی پہلی ویب سائٹ پر کام کر رہی ہوں‘
انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹولز کاروباری خواتین کو بہت مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے صوبوں میں اکثر ان کے پاس ضروری معلومات اور رسائی کی کمی ہوتی ہے۔ پی جی ایف آر کی تربیت اُنہیں سکھاتی ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے اور زیادہ سے زیادہ صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے کون سے ٹولز استعمال کرسکتے ہیں اور کیسے کرسکتے ہیں۔
کپڑے سینے سے کچھ بڑھ کر: پاکستان میں بطور درزی اپنا کاروبار
پی جی ایف آر سی کا شکریہ کہ اس کی بدولت پاکستان میں خواتین درزی بننے کی تربیت حاصل کرسکتی ہیں۔ اس کورس کی شرکا خودمختار کیسے بنتے ہیں یہ بھی سیکھتی ہیں۔
پہلی بار پی جی ایف آر سی نے غیر محفوظ گروہوں کے لیے اہدافی منصوبے شروع کیے۔ ان منصوبوں میں تربیت بھی شامل ہے جو ابھرتے ہوئے کاروباری افراد کو خودمختار بننے کی تیاری کراتی ہے۔ مثال کے طور پر فن طباخی کی تربیت جو کہ کھانا پکانے سے بہت آگے ہے۔
وئی بھی شخص جو پاکستان میں شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی میں پیشہ وارانہ مواقعوں کی تلاش میں ہو وہ پی جی ایف آر سی کی جانب سے کرائے جانے والے تربیتی کورس میں حصہ لے سکتا ہے۔ 20 شرکا نے اس پیشکش کا استعمال کیا اور اُن کے اپنے مستقبل کیلیے واضح منصوبے ہیں۔
میں نے 3 سال سعودی عرب میں بطور الیکٹریشن کام کرتے ہوئے گزارے لیکن زیادہ نہیں کما پارہا تھا اور اپنے گھروالوں کو بھی بہت یاد کرتا تھا۔ تو میں سنہ 2018 میں پاکستان واپس آگیا۔ پی جی ایف آر سی کی جانب سے ملنے والی مدد نے مجھے خودمختار بننے کے قابل بنایا۔
میں نے اپنے گھر والوں کو اچھی زندگی دینے کیلیے 8 سال جرمنی میں کام کرتے ہوئے گزارے ۔ لیکن میں اُنہیں بہت یاد کرتا تھا تو میں واپس چلا آیا۔ آغاز میں مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اپنے پیروں پر کیسے کھڑا ہوں۔ اب میں ایک خود مختار راج مستری ہوں اور اس کیلیے میں پی جی ایف آر سی کا شکرگزار ہوں۔
Ich führe dank der Trainingskurse und materiellen Unterstützung des Zentrums mein eigenes Unternehmen in Pakistan. Ich bin froh, wieder in der Nähe meiner Familie zu sein.
میں کچھ وقت بیرون ملک گزارنے کے بعد سنہ2018 میں پاکستان واپس آیا۔ میں دوبارہ سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔ پاکستانی جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر ۔۔ پی جی ایف آر سی – نے مجھے کھانے پکانے کے کورس میں حصہ لینے کے قابل بنایا۔ یہاں سے سنیک وین کی بنیاد ڈلی جسے میں اب کامیابی کے ساتھ چلا رہا ہوں۔
میں نے پاکستان سے باہر کئی سال بطور الیکٹریشن کام کرتے ہوئے گزارے لیکن مجھے اپنے گھر والوں کی بہت یاد آتی تھی ۔ سنہ 2018 میں جب میں پاکستان واپس آیا تو ابتدا میں میری کمائی زیادہ نہیں تھی۔ ایک دوست نے مجھے پی جی ایف آر سی کی خدمات کے حوالے سے آگاہ کیا۔ اور اس طرح میری نئی شروعات ہوئی۔
میں کورونا کی وبا کے دوران اپنے گھر والوں کے پاس پاکستان واپس آیا۔ پی جی ایف آر سی نے بطور فوٹوگرافر کاروبار شروع کرنے میں میری مدد کی۔ میرا فوٹو سٹوڈیو اب بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔
میں کمپنی میں کام کرتی تھی جسے کووڈ – 19 کی وبا کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ تو میں نے روایتی کپڑوں کی فروخت کا آن لائن کاروبار شروع کیا۔ میرا کاروبار کامیاب ہوگیا اور اس کیلیے میں پی جی ایف آر سی ملنے والی مدد کی بہت شکرگزار ہوں۔
مجھے جس کی تلاش تھی وہ مجھے مل گیا: میں اپنے آبائی ملک میں بطور ڈرائیور خود مختار ہوں۔ پاکستانی جرمن فیسلیٹیشن اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر نے اس موقع کی تلاش میں میری مدد کی۔
میں جرمنی اس لیے گیا تاکہ اپنے گھر والوں کی مدد کرسکوں۔ میری والدہ بیمار ہوئیں تو میں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی – جرمن فیسلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) نے درزی کی دکان کھولنے میں میری مدد کی۔
نیا کام سیکھنا یا اپنا خود کا کاروبار شروع کرنا کئی لوگوں کا خواب ہوتا ہے۔ پاکستانی جرمن فیسیلیٹیشن سینٹر اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ اپنے شراکت دار اداروں کے ساتھ مل کر پیشہ وارانہ تربیت کراتی ہے، جس میں ایک ماہ فوٹوگرافی کا کورس بھی شامل ہے۔ ایک جھلک پردے کے پیچھے کی۔
کھانا پکانے کے شعبے میں مستقبل بنانے کیلیے تربیتی کورس
نیا کام سیکھنا اور اپنا کاروبار شروع کرنا چند ان چیزوں میں سے ہے جس کا کئی لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستانی – جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) مدد فراہم کرتے ہیں جن میں فن طباخی کا تربیتی کورس بھی شامل ہے۔
نیا کام سیکھنا اور اپنا کاروبار شروع کرنا چند ان چیزوں میں سے ہے جس کا کئی لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ پاکستانی – جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری انٹی گریشن سینٹر (پی جی ایف آر سی) موٹرسائیکل مکینک کا تربیتی کورس فراہم کرکے مدد کرتا ہے۔
جرمنی میں گزرا وقت بہت اچھا تجربہ تھا۔ لیکن میں وہاں کام نہیں کرسکتا تھا۔ سینیگال میں واپس آکر میں اب سلائی کی دکان چلاتا ہوں اور اب میں ایک تیار لباس کی دکان کھولنے کا بھی سوچ رہا ہوں۔
کئی افراد بہتر زندگی کی تلاش میں تیونس کے ساحلی شہر سفیکس سے یورپ کی راہ لیتے ہیں۔ جرمن – تیونیشین سینٹر فار جابز، مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن (سی ٹی اے) کےمشیر اُسامہ ہجرت کے کچھ متبادل راستوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
واپس لوٹنے والوں کے ساتھ گفتگو کا مرکزی نقطہ کیا ہوتا ہے؟ زینٹریل رکربیراتنگ سُدبائیرن (زیڈ آر بی – سینٹرل ریٹرن کاؤنسلنگ فار ساؤتھرن باویریا) کے مارکوس فیبگر اپنی ٹیم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے
نگہت عزیز پاکستان جرمن فیسیلیٹیشن اینڈ ری اینٹی گریشن سینٹر(پی جی ایف آر سی مشیر ہیں اور ضرورت مند خواتین اور مرد حضرات کی رابطہ کار ہیں۔ یہ مرکز میں دیگر شراکت دار تنظیموں کے ساتھ مل کر اُن کی مخصوص ضروریات کے حل کیلیے کام کرتی ہیں۔
4لڑکیوں کے والد اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلیےپُرامید ہیں۔جرمن انفارمیشن سینٹر فار مائیگریشن،ٹریننگ اینڈ امپلائمنٹ (ڈی ماک) اس میں خاندان کی مدد کررہا ہے۔
سیموئل نے یورپ میں بہتر زندگی کی تلاش میں گھانا چھوڑا ۔کئی کٹھن سالوں کے بعد وہ واپس گھانا آچکے ہیں اور اب اپنے آبائی وطن میں نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ خود کے کپڑے کے کارخانے کا منصوبہ تشکیل دیا یہاں تک کہ وہ اُس وقت جرمنی میں ہی تھے۔
میں نے 2بار گھاناسے یورپ کیلیے رخت سفر باندھا اور دونوں بار مجھے کامیابی کے بغیر واپس لوٹنا پڑا۔اب میں اعتماد کے ساتھ اپنے مستقبل کی جانب دیکھ سکتا ہوں اور اس کیلیے میں گھانین-جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن(جی جی سی) کا شکرگزار ہوں۔
’جب بحران آتا ہے بہت سے افراد اپنے آبائی ملک لوٹ جاتے ہیں‘
سحر علی مصر – جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن (ای جی سی) کی سربراہ ہیں،اس نئے مرکز کا آغاز نومبر کے اوائل میں قاہرہ میں ہوا ہے۔اپنی گفتگو کے دوران اُنہوں نے بتایا کہ یہ مرکز کیا کرتا ہے اور وہ اِس کیلیے اتنی پُرامید کیوں ہیں۔
میرا خیال تھا کہ یورپ جانے سے میری تمام مشکلات حل ہوجائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اب میں سینیگال میں رہتا ہوں اور بہت خوش ہیں، اس کیلیے میں ہاؤس آف ہوپ کا شکرگزار ہوں،جنہوں نے مجھے نفسیاتی مدد فراہم کی۔
تیونس میں حکومت کی زیر سرپرستی میں چلنے والے دو ووکیشنل کالجز نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ سیکھاتے ہیں کہ کس طرح کیٹرنگ اور ہوٹل کی صنعت میں اپنا کیریئر(عملی مستقبل) شروع کریں۔
جو لوگ جرمنی میں عملی تربیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اُن کے پاس اپنے آبائی وطن میں نوکری کی تلاش کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔اسی لیے جو واپس جانے کی خواہشمند ہیں وہ یہاں قینچی، ہیئر ڈرائیر اور بال رنگنے کی مشقیں کررہے ہیں۔
البانیا میں یہ پروگرام جی آئی زیڈ کی جانب سے کرایا جاتا ہے تاکہ نوجوان مرد اور خواتین کو ہوٹل انڈسٹری میں نوکری کیلیے تیار کیا جاسکے اور کامیابی کیساتھ نوکری کی تلاش کے امکانات کو بڑھایا جائے۔
ڈیوڈ یامینسا ٹیٹ آکرا میں گھانین جرمن سینٹر فار جابز،مائیگریشن اینڈ ری اینٹی گریشن (ایم آئی اے سی) کے ڈائریکٹر ہیں، اس مختصر انٹرویو میں انہوں نے سینٹر کے کام اورکس چیز نے اُنہیں ذاتی طور پر تحریک دی اُس حوالے سے بات چیت کی ہے۔
جرمنی سے واپس لوٹنے والا خاندان اپنے بچوں کیلیےاسکول کی تلاش میں ہے۔ جنوبی سربیا کے ایک گاؤں کے مرد اور خواتین جاننا چاہتے ہیں کہ نوکری کس طرح حاصل کی جائے۔ تمارا ویسینوویک اُن کی اور دیگر افراد کی مدد کرتی ہیں۔ وہ جرمن انفارمیشن سینٹر آن مائیگریشن،ٹریننگ اینڈ امپلائمنٹ (ڈی ماک) اِن سربیا کے مشیر ہیں۔
کاروبار کو کامیابی سے چلانے کی چاہت تجارتی سوجھ بوجھ چاہتی ہے۔سپارک اسین سٹفٹنگ کی جانب سے کرایا جانے والا کورس سکھاتا ہے کہ اچھے طریقے سے علم کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
میرا نام عجیم ہے اور میں کوسووو سے آیا ہوں۔میں ماربل انڈسٹری میں کام کرتا تھا لیکن میری تنخواہ انتہائی کم تھی۔ جس سے گھر کا خرچ چلانا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔تو2015 میں میں اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ جرمنی چلا آیا اور ہم نے پناہ کیلیے درخواست دے دی۔
میرا نام بیسٹون ہے؛میں 32 سال کا ہوں اورمیں عراق کے شہر اربیل سے آیا ہوں۔ میں شادی شدہ اور 2 بچوں کا باپ ہوں۔ہم سب 2018 میں جرمنی گئے ،کیونکہ عراق میں ہمارے لیے حالات پہلے سے بدتر ہوگئے تھے لیکن جرمنی میں بھی ہمارے لیے زندگی اچھی نہ تھی۔آج ہم اربیل واپس آچکے ہیں اور میرا اچھا کیریئر ہے۔ اب میں ایک ہیئر ڈریسر ہوں۔
میرا نام ری الاف اور عمر 25سال ہے۔میں2018کے آغاز میں جرمنی گیا اور وہاں اپنا کیریئر شروع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن5ماہ گزارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ بغیر قانونی حیثیت کہ یہ مشکل ہوگا۔تو اپنے وطن البانیا واپس آگیا۔اس کے بعد میرے لیے مواقعوں کے نئے دروازے کھل گئے۔جو ہوا وہ یہ تھا
میرا نام ساسا ہے۔میں نے وسطی سربیا کے شہرکروشیواتس میں جنم لیا اور جرمنی میں کئی سال گزارنے کے بعد میں اپنے گھر لوٹا۔اس دوران میں سربیا میں اپنی کمپنی کھولنے کے قابل ہوا،یہ وہ چیز تھی جس کا میں نے ہمیشہ سے خواب دیکھا تھا۔ لیکن میں نےکچھ مدد بھی لی۔ یہی میری کہانی ہے۔
میرا نام ناں ہے؛میں29سال کی ہوں اور گھانا سے آئی ہوں۔میں بطور ایونٹ منیجر کام کرتی تھی۔2015 میں ڈویلپمنٹ اکنامکس اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ماسٹر ڈگری پروگرام کیلیے جرمنی گئی۔لیکن یہ آغاز میں ہی واضح تھا کہ اختتام پر مجھے واپس لوٹنا ہوگا۔میں ترقی میں اپنے ملک کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ساتھ ہی ساتھ میں غیریقینی کا شکار تھی کہ وہاں کسی طرح اپنا مستقبل بناسکتی ہوں۔
میرا نام سیفٹ ہے اور میں سربیا سے آیا ہوں۔اپنے ملک میں طویل عرصے تک بطور مستری اور سجاوٹ والا کام کرنے کے بعد میں قسمت آزمانے جرمنی آیا ۔ اگرچہ یہاں نوکری کی تلاش انتہائی مشکل کام تھا۔ تو میں نے سربیا واپس جانے پر غور شروع کردیا ۔ جس کے بعد میرے لیے فیصلہ لیا گیا اور جرمن حکام نے مجھے ڈیپورٹ کردیا۔
میرا نام سید ہے اور میں مراکش کے ضلع فیس میں پلابڑھا۔یہاں میں نے درزی کا کام سیکھا۔ مجھے لگا کہ دیگر جگہوں پر مواقع زیادہ ہوں گے،تو 2015 میں سب سے پہلے ترکی اور پھر یونان گیا۔آخری کار میں جرمنی پہنچا۔ اُسوقت میں میری عمر30سال تھی اور جرمنی میں کام کی تلاش کیلیے پُرامید تھا۔
میرا نام ڈیرک ہے؛میں گھانا سے آیا ہوں اورمیری عمر29 سال ہے۔میں نے کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کی لیکن اپنے ملک میں نوکری نہ حاصل کرسکا۔ میں2014 میں بطور سیاح جرمنی آیا اور پھر وہیں رک گیا اور ریسٹورنٹ میں کام کرنے لگا۔لیکن میری زندگی ویسی نہیں تھی جیسے میں نے سوچی تھی۔
میرا نام جیری ہے اور میں نائجیریا سے آیا ہوں۔2014 میں اسکالرشپ کی وجہ سے میں نے ایک سال برطانیہ میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد مجھ پر یہ واضح ہوگیا:میں نائیجیریا واپس جانا چاہتا ہوں اور اپنے علم کو اپنے ملک میں استعمال کروں۔
ایسی کمپنی شروع کرنا جو انٹرنیٹ مارکیٹنگ پر زور دیتی ہو اُس نے انہیں اُمید دلائی:جرمنی سے سربیا لوٹنے کے بعد امیلیانو نے اپنا نیا مستقبل بنایا۔ آج وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے اور کئی نئے ملازمین کو نوکریوں پر رکھنے پر غور کررہا ہے۔
میرا نام بلال ہے۔2015 میں معاشی مشکلات کے بعد میں نے عراق چھوڑا اور جرمنی چلا گیا۔ میں وہاں بہتر زندگی کی تلاش میں تھا۔میں 12 دن کے سفر کے بعد بغیر مناسب کھانے یا رہائش کے بعد جرمنی پہنچا ۔میری اُمیداپنی مشکلات کا حل تلاش کرنا تھا۔
سلام، میں خالد ہوں۔ میں 34 برس کا ہوں اور تیونس سے آیا ہوں۔ میرے خاندان کا پھلوں اور سبزیوں کا کاروبار ہے جہاں میں نے طویل عرصے تک کام کیا۔ یورپ میں رہنا میرا ہمیشہ سے خواب تھا ۔ 2008میں جب میں 24سال کا تھا میں نے یورپ کیلیے رخت سفر باندھا۔ آغاز میں، میں نے ایک سال اٹلی میں گزارا۔ جس کے بعد میں بذریعہ فرانس اور بیلجیئم جرمنی پہنچا ۔
میرا نام یاسین ہے اور میں مراکش سے آیا ہوں۔ میں نے ضلع فیس سے اسلامی تعلیم مکمل کی لیکن گریجویشن کے بعد نوکری حاصل نہیں کرسکا۔اُس کے بعد خوش قسمتی سے پروموشن آف رورل یوتھ امپلائمنٹ(پی ای جے) پراجیکٹ کی جانب سے تربیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
میرا نام اگریتا ہے اور میں البانیہ سے آئی ہوں۔میں نے جرمنی 2016میں اپنے خاوند اور3 بچیوں کے ساتھ جرمنی ہجرت کی۔ہم کیا چاہتے تھے؟ ایک بہتر زندگی! درحقیقت یہ بہت اچھا رہا:میرے خاوند کو ویلڈنگ اور مجھے صفائی کا کام اور بچوں کو اسکول میں داخلہ ملا۔انہوں نے جلد ہی جرمن سیکھ لی۔ اس وقت تک ہم نے اپنے اہلخانہ، دوستوں اور البانیہ کے رسم و رواج کو بہت یاد کیا۔لہذا 2017 جنوری میں ہم واپس لوٹ گئے۔
کورونا وبا کے دوران وطن واپسی کے ارادے - سوالات و جوابات
عام حالات میں جب آپ اپنے ملک واپس لوٹ رہے ہوں تو لوگ کئی طرح کے سوالات پوچھتے ہیں۔کورونا کی وبا نے تو حالات کو یکسر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔یہاں آپ ماضی اور حال کے چند اہم حقائق سے سیکھ سکتے ہیں ۔8سوالات اور اُن کے جوابات۔
سولوڈی (سولیڈیرٹی ود وومین اِن ڈسٹریس) انسانی حقوق کا ادارہ ہے،جو مشکل صورتحال میں خواتین کی مددکرتا ہے اور اِنہیں خودمختار بناتا ہے۔ سولوڈی جی آئی زیڈ کی شراکت دار ہے اور جرمنی میں موجود خواتین جو اپنے وطن واپس لوٹنے کے خواہشمند ہوں اُن کی مدد کرتا ہے
اسٹیفن گروئنبام جی آئی زیڈ کے اُن 20 رضاکاروں میں سے ایک ہیں جو جرمنی کی تقریباً تمام ریاستوں میں ہی موجود ہیں۔یہ تمام جرمنی میں موجود کونسلرز اوردیگر ممالک میں کام کرنے والوں کے درمیان رابطہ پل کا کردار ادا کرتے ہیں
کورونا بحران کے دوران کام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مشیر ہیلسا ڈوکا اور ڈوریسا لالا کا کہنا تھا کہ حالیہ چند سالوں کے دوران ہماری ساکھ اور صاف گوئی کی وجہ سے ڈی ماک پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور اب اس کا فائدہ ہورہا ہے۔
روزی کمانے کے لیے – اور عالمی وباء کو روکنے کے لیے – ماسک بنانا
سینتھیانائجیریا میں اپنا فیشن اسٹور کھولنے کی خواہشمند تھیں لیکن پھر کووڈ-19کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب سینتھیا فیس ماسک کی سلائی کررہی ہیں اور اِس بحرانی دور میں سرکاری آرڈر سے اُنہیں مالی مددمل رہی ہے۔
تربیتی کورسز کا انعقاد کیا نہیں جاسکتا،واپس جانا ناممکن ہے اوراِن ممالک میں نوکریوں کے حوالے سےبہت دباؤ ہے:نیو پلیسمنٹ انٹرنیشنل(این پی آئی) کے منصوبے نے کورونا بحران میں دوسرا جنم لیا ہے۔موجود صورتحال پر چار سوالات اور اُن کے جوابات۔